Saturday, 28 February 2015
دہشت گر دی کا علا ج بر وقت انصا ف ہے
یہ اس دور میں دہشت گردی پر بہت کام ہو رہا ہے لیکن میں یہ سجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے جواب میں یہ سرکاری طور پر دہشت گردی ہے جو بظاہر حکومت کے قانون میں جرم نہیں کہلاتی ۔ اللہ کریم کے نزدیک تو یہ جرم ہے کہ کسی ایک شخص نے جرم کیا تو اس کی جگہ دس اور پکڑ لیے ان کو مارا پیٹا کس کو سزادی اور جان چھوٹ گئی۔ محض خانہ پری ہوتی ہے۔ جرم کسی نے کیا وہ بھاگ گیا اور پورا گاؤں تباہ کر دیا گیا جس میں بے شمار معصوم بچے غریب عورتیں غریب لوگ جرم نہ کرنے والے لوگ مارے گئے ۔ دنیا میں انصاف اس طرح ہو رہا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح ہو رہی ہے کہ جرم کسی ایک بندے کا ہے اور آپ نے ایک ملک تباہ کر دیا تو کیا اس پورے ملک نے دہشت گردی کی تھی ! جسے آپ انصاف کہہ رہے ہیں یہ بھی دہشت گردی ہے جو آپ اپنی طاقت کے مطابق کر رہے ہیں۔ انصاف تو یہ ہے کہ جس نے جرم کیا ہے وہ اس جرم کی سزا پائے لیکن اس کے ساتھ بے گنا ہوں اور معصوموں کو تہہ تیغ کر دیا انصاف نہیں ہے یہ سرکاری پیمانے پر ایک بڑی دہشت گردی ہے۔ ظلم کے مقابلے میں اگر ظلم کیا جائے تو ظلم ہی بڑھے گا۔ ظلم کے مقابلے میں عدل کیا جائے تو ظلم ختم ہو جائے گا لیکن ظلم کے مقابلے میں ظلم کیا جائے !نئے دستور میں نئے زمانے کے لئے آگ ہی لائی گئی آگ بجھانے کے لئےآگ لگی ہے اور آپ اس پر مزید آگ پھینک رہے ہیں تو اس سے آگ بجھے گی نہیں بڑھے گی۔ ظلم چھوٹے پیمانے پر ہوا ہے اس کی جگہ آپ بڑے پیمانے پر ظلم کرتے ہیں اور اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ اس سے معاشر و سدھر جائے گا یہ ممکن نہیں بلکہ آپ بھی ظلم کریں گے تو ظلم بڑھے گا۔ اگر انصاف کرنے والے بھی ظلم کریں گے تو ظلم ہی بڑھے گا وہ ظلم ہی کو بڑھوتری دے رہے ہیں۔ ظلم کو منانے کے لئے عدل وانصاف کی ضرورت ہے۔ تحقیق کی جائے جس نے جرم کیا ہے اسے قرار واقعی سزادی جائے اور اسے لوگوں کے سامنے سزادی جائے تا کہ دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ رعایت نہ کی جائے کوئی بڑا ہے یا چھوٹا' اسے سزادی جائے اور اس میں معاشرے کی زندگی ہے۔وَلَكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّّآ اُولِى الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ان صاحب دانش لو گو ا قصاص میں اور انصاف میں معاشرے کی زندگی ہے۔ اگر انصاف اٹھ جائے گا تو لوگ جیتے تو رہیں گے لیکن انسانوں کی طرح نہیں، جانوروں کی طرح انسان محض ایک کھانے پینے بات کرنے اور چلنے پھرنے والا جانور ہوگا ۔ انصاف ایسی صفت ہے جو اللہ سے رشتہ استوار کرتی ہے۔لعلكم تتقون انصاف کرو کہ تمہیں اللہ کریم سے قرب اس سے تعلق اور اس کی محبت نصیب ہو اور معاشرہ انسانی اوصاف کے ساتھ زندہ رہے۔
Thursday, 26 February 2015
ذ کر الہی دلو ں کیی پا لش ہے
ذکر الہی دلوں کی پالش ہے
بندہ اس بات کا دھیان رکھے کہ میرے دل میں جو سوال نقش تھا، کیا وہ زندہ ہے؟ کیا میں اپنے اس محسن عظیمﷺ کو پہچان سکتا ہوں جس نے مجھے انسان بنا دیا، جس کی ذات ستودہ صفات نے مجھے اللہ کا کلمہ سکھایا اور جس کی رسالت کی پناہ میں میرے دو عالم ہیں ! کیا میرا رشتہ محمد رسول اللہ ﷺ سے استوار ہے اور مجھے اس رشتے کی کچھ فکر بھی ہے؟
کیا میں دنیا کے کام کرتے وقت دن رات بسر کرتے وقت یہ لحاظ کرتا ہوں کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جائے کہ مجھ سے میرے آقا و مولا خفا ہو جائیں!
کہیں اس رشتے میں دراڑ نہ آجائے اور تعلقات کمزور پڑ جائیں!
اگر یہ بات ہے تو ایمان زندہ ہے ۔
خدانخواستہ اگر یہ نہیں ہے تو لوح قلب کو دھوئے اور خوب رگڑ کر دھوئیے ۔
دل کو دھونے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔
آقائے نامدار ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر چیز پر زنگ لگتا ۔ دلوں پر بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ ہر چیز کی پالش ہے لوہے کی الگ ہے، پیتل کی الگ ہے سونے کی الگ ہے اور اسے پالش کیا جائے تو شیشے کی طرح چمکنے لگتا ہے ۔
وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ ۔ اور دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔ پھر اسے اللہ اللہ سے دھوئیے ۔ اللہ اللہ سے اس کو پالش کیجئے ۔ اسے اللہ اللہ سے صاف کیجئے اور اتنی دفعہ اللہ اللہ کیجئے کہ یہ درد پھر سے زندہ ہو جائے اس میں ٹیسیں اٹھیں، پھر وہ تلاش کرےاور وہ در حبیب ﷺپر پہنچے اور جمال مصطفی ﷺسے سیراب ہو ۔
Wednesday, 25 February 2015
دعوت خاص وعام
سلسلہ نقشبندیہ میں اویسیہ میں بطریق انفاس ذکر سکھلایا جاتا ہے،لطائف مراقبات سے گزار کر فنا فی الرسولﷺ کا مراقبہ
میں سالک
کو بارگاہ نبویﷺ میں پیش کر کے دست اقدسﷺ پر بیعت کا شرف حاصل ہوتا ہے ،اصطلاح تصوف میں اسے
"روحانی بیعت "کہا
جاتا ہے۔بحمد تعالیٰ یہ نعمت ہزاروں سالکین کو نصیب ہے ،اگر آپ اس کے طالب ہیں ،تو دعوت خاص وعام ہیں۔
کنز الطالبین صفحہ ۱۰۱
ميں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ آدمی
رضائے الٰہی کو مقصد بنا کر اور طلب صادق لے کر ہمارے سلسلہ(نقشبندیہ اویسیہ دار
لعرفان منارہ چکوال پاکستان) میں آجائے ،تو انشاء اللہ چھ ماہ کے عرصہ میں روح سے
کلام سے کلام کر لے گا۔،روح کو بھی دیکھ لے گا،حتی کہ یہ بھی دیکھ لے گا ،روح علین
میں ہو اور بدن صیح ہو تو روح کا تعلق بدن سے کس طرح ہوتا ہے،اور اگر بدن صیح نہ
ہو تو ذرات جسم کے ساتھ روح کا تعلق کیسے ہوتا ہے،اور یہ بھی دیکھ لے گا کہ نبی
کریم ﷺ کی روح مبارک کا تعلق آپﷺ کے جسم اقدس سے جس صورت میں ہے ،اسکی کفیت کیا
ہے،اور آپ ﷺ قبر مبارک میں کس کفیت سے زندہ ہیں ،بلکہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ حضور ﷺ
کے سینہ مبارک سے انوار کی بارش کس طرح ہوتی ہے ،اور ان انوار کی تاریں کس طرح
مومنوں کے ایمان کو قائم رکھے ہوئے ہیں ۔
دلائل السلوک ص195)
میں
جانتا ہوں کہ میری ان باتوں سے بعض لوگوں کو سخت تکلیف ہوگی ،مگر یہ کوئی تعجب کی
بات نہیں کیونکہ ہر زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے،مگر میری غرض اظہار حق ہے ،اور
تصوف و سلوک اسلامی کو حقیقی رنگ میں پیش کرنا ہے ،جسے دنیا پرست دکانداروں نے
ایسا مسخ کر دیا ہے کہ اسکا پہچاننا مشکل ہو گیا ہے ،آنے والی نسلیں انشاء اللہ
تعالیٰ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں گی۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
اپنے رب کو بہت یاد کر
بِ سْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ قَ الَ رَبِّ اجْعَلْ لِّىٓ اٰيَةً ۖ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ اَيَّامٍ...
-
Introduction and Method of Zikr e Qalbi _ تعارف... by mysticsoul11
-
https://plus.google.com/u/0/104084462352780829732/posts/4Pjfi4M8c1J http://dailyvoiceofpakistan.net/epaper/mai...
-
: تزکیہ القلوب کی اہمیت سورة البقرہ آیات 129 تزکیہ کی بنیاد کیا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرام کا تعلق براہ راست تھا۔ ایک نگاہ میں ای...