Tuesday, 14 July 2015

أو در با ر نبوی صلو علیہ وسلم کی طرف چلیں

 
 سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ

 

       



                   
 دارالعرفان مناره چکوال




سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ  کا طرہ امتیاز آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست 

اقدس پر بیعت ہے، اور الحمداللہ یہ کوئی ڈھکی چھپی یا راز کی بات نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں ماسوائے سلسلہ عالیہ کے اس دولت کے آمین اور اسکا بانٹنے والا کوئی نہیں ملتا ، خلوص فی النیت ، خلوص فی العمل لیکر جس کا جی چاہنے، آئے اور خود دیکھ لے

أو تمھا ر ے دلوں میں چراغا ں کر دوں


ziker on line




Wednesday, 8 April 2015

نشا ن منز ل سے ما خو ذ کلا م شيخ المکر م امير محمد اکرم اعوان


قنا عت کيسے حا صل ہو

قنا عت کیسے حاصل ہو

الله ما في السموات وما في الأرض ایک بات یقیناً جان لو! جو کچھ ارض و سما میں ہے اللہ کریم کی ذات کے علاوہ جو کچھ جہاں کہیں ہے وہ سب اللہ کا ہے۔ فرمایا: تمہارا تو کچھ بھی نہیں، تم کسی غرض سے گناہ کرتے ہو
تم کس لئے جھوٹ بولتے ہو تم کس لئے دوسرے کی چیز کو چھینتے ہو اس کا فائدہ کیا ہو گا وہ تمہاری تو نہیں ہے؟ تم آج ہو کل نہیں ہو گے ۔ آج تمہارے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہوگی ۔ اقتدار دولت زمین مال و اسباب آپ نے دیکھا جو کبھی کسی کے پاس تھا وہ آج ہمارے پاس ہے اور کل کسی اور کے پاس ہوگا ۔ ہمارا تو نہیں ہے سب اللہ کا ہے۔ لہذا اللہ کریم کی تقسیم پر مطمئن رہو ۔ دنیا عالم اسباب ہے۔ اسباب کا اختیار کرنا فرض ہے۔ جس طرح نماز فرض ہے روزہ فرض ہے اسی طرح اسباب کا اختیار کرنا بھی فرض ہے۔ رزق حلال کے لئے اپنے تحفظ کے لئے کاروبار حیات کے لئے اسباب کا اختیار کرنا اطاعت الہی ہے لیکن اسباب نتائج پیدا نہیں کرتے۔ نتائج اللہ کے دست قدرت میں ہیں، نتائج وہ پیدا کرتا ہے ۔
یہاں آدمی پھنس جاتا ہے۔ کوئی اسباب میں الجھ جاتا ہے اور اللہ کو بھول جاتا ہے کہ یہ سب میری دانش و عقل سے ہوا 
۔ قارون نے کہا تھا کہ اللہ کے نام پر زکوۃ کیوں دوں یہ خزانہ تو میں نے اپنی دانش سے جمع کیا۔ بندہ اس میں الجھ جاتا ہے کہ یہ میری عقلمندی میری محنت ہے کہ میں نے کر لیا میں دوسروں سے بہت بہتر ہوں ۔ کوئی دوسروں سے بہتر نہیں ہے سب اللہ کی مخلوق ہیں ۔ اس نے کسی کو کسی حال میں رکھا ہے دوسرے کو مختلف حال میں رکھا ہے۔ ہر حال میں جہاں کوئی ہے وہاں اپنا فرض منصبی جو اس کے ذمے ہے دیانت داری سے ادا کرے اور اس بات پر یقین رکھے کہ مجھے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ جتنے وسائل کم ہوںگئے اتنی ذمہ داریاں کم ہوں گی۔
 جس کے پاس جتنے کم وسائل ہوتے ہیں اس پر اتنی ذمہ داریاں کم ہوتی ہیں اور دنیا میں وہ اتنا آسانی سے رہتا ہے۔ جتنے اسباب و وسائل بڑھتے جاتے ہیں، ذمہ داریاں بڑھتی جاتی ہیں۔ ہر ذمہ داری اپنا وقت لیتی ہے حتی کہ آدمی اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں بچتا۔ اللہ نے جو کچھ بھی دنیاوی وسائل عطا فرمائے اور جس قدر عطا فرمائے ان پر قناعت اختیار کرو كيونكہ الله ما في السموات وما في الأرض جو کچھ آسمانوں زمینوں میں ہے جو کچھ کائنات میں ہے جہاں بھی جو کچھ ہے سب اللہ کاہے 

ثو ا ب کيا ہے


تز کيۃ ا لقلو ب


:تزکیہ القلوب کی اہمیت

سورة البقرہ آیات 129
تزکیہ کی بنیاد کیا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرام کا تعلق براہ راست تھا۔ ایک نگاہ میں ایک عام آدمی جس نے کلمہ پڑھا وہ تزکیے سے سرفراز ہو کر صحابی بن گیا۔ مرد بن گئے، خواتین بن سکیں، پڑھے لکھے بن گئے ، ان پڑھ بن گئے۔ بات کیا تھی ؟ قلب اطہر محمد رسول اللہ ﷺ سے جو نور کی لہر اٹھی اس کے دل کو منور کر گئی۔ ایک نگاہ نے بیڑا پار کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جوڈا کو ، چور تھے ، لوٹ کر کھاتے تھے ان کا تزکیہ ہوا، خود بھو کے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے تھے۔ یعنی سو فیصد تبدیلی آگئی جو اپنی ذات کے لئے لڑتے ان کی تلواریں راہ حق میں اٹھنا شروع ہو گئیں، جو بکھرے ہوئے تھے وہ متحد ہو گئے ، جو گمراہ تھے وہ لوگوں کے رہنما بن گئے 
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے بادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا۔
تزکیے کی بنیاد ہے حضور اکرم ﷺ سے تعلق جنہیں براہ راست نصیب ہو گیا وہ صحابی ہو گئے۔ جنہوں نے صحابہ کو دیکھا اور ان کے سینے سے پر تو جمال ان کے سینے میں آیا، وہ تابعی ہو گئے۔ جنہوں نے تابعین کو دیکھا اور وہ نور جو ان کے سینے میں تھا ان کے سینے میں منعکس ہوا نتبع تابعی ہو گئے اور اس کے بعد وہ سلسلہ اولیاء اللہ میں منتقل ہوا ۔ بڑے اولوا العزم لوگ، بڑے باہمت لوگ زندگیاں صرف کر کے محنتیں کر کے انوارات محمدیہ ﷺ کو اپنے دلوں میں منتقل کرتے رہے۔ پھر ان میں بہت مخصوص لوگ ہوئے جن میں یہ قوت بھی اللہ نے دی کہ اس نور کو آگے تقسیم کر سکیں۔ یہ بڑے عجیب، بڑے لا جواب اور بے نظیر لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے وجود سے اللہ کریم نے اپنی رحمتیں وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں۔ وہ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ساری زندگی دیکھنا نصیب نہیں ہوا، ملاقات نہیں ہوئی لیکن درد دل کو پاگئے۔ حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ قرن میں رہے اور انوارات مدینہ منورہ سے سمیٹتے رہے لیکن ہر چیز کی قدر کا، اس کی قیمت کا اندازہ جاننے کے بعد ہوتا ہے۔ 
اصل طریقہ کار حصول تزکیہ کا یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے انوارت و برکات نبوی ﷺ کو حاصل کیا جائے ۔ دل میں منتقل کیا جائے ۔ دل کا تزکیہ ہو ۔ تزکیہ ہوگا تو اس کے ساتھ علوم بھی آئیں گے، مفاہیم بھی آئیں گے، برکات بھی آئیں گی، قرآن کی سمجھ بھی آئے گی ، عبادت کی سمجھ بھی آئے گی، عبادت کے اجر کی سمجھ بھی آئے گی ، عبادت نصیب ہوگی ۔ اگر کردار یہ نہیں ہے تو پھر دھوکا ہے جو بندہ اپنے آپ کے ساتھ کر رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جس دعا کا تذکرہ قرآن حکیم کی ان آیات میں فرمایا گیا، اللہ کریم اس کے ثمرات سے ہمیں بھی نوازے
 
یا اللہ! ان میں ایسا عالیشان رسول ﷺ مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کے مفاہیم سمجھائے، انہیں اپنے احکام وفرامین سے دانشمند بنادے اور ان کا تزکیہ کر دے، انہیں پاک نفس بنا دے، پاک دل بنا دے، روشن سینہ کر دے، چشم بینا کر دے، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ بے شک تو غالب ہے اور تو حکمت والا ہے۔

Saturday, 28 February 2015

پور ے دين کا مد ار صر ف ايک با ت پر



دہشت گر دی کا علا ج بر وقت انصا ف ہے


یہ اس دور میں دہشت گردی پر بہت کام ہو رہا ہے لیکن میں یہ سجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے جواب میں یہ سرکاری طور پر دہشت گردی ہے جو بظاہر حکومت کے قانون میں جرم نہیں کہلاتی ۔ اللہ کریم کے نزدیک تو یہ جرم ہے کہ کسی ایک شخص نے جرم کیا تو اس کی جگہ دس اور پکڑ لیے ان کو مارا پیٹا کس کو سزادی اور جان چھوٹ گئی۔ محض خانہ پری ہوتی ہے۔ جرم کسی نے کیا وہ بھاگ گیا اور پورا گاؤں تباہ کر دیا گیا جس میں بے شمار معصوم بچے غریب عورتیں غریب لوگ جرم نہ کرنے والے لوگ مارے گئے ۔ دنیا میں انصاف اس طرح ہو رہا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح ہو رہی ہے کہ جرم کسی ایک بندے کا ہے اور آپ نے ایک ملک تباہ کر دیا تو کیا اس پورے ملک نے دہشت گردی کی تھی ! جسے آپ انصاف کہہ رہے ہیں یہ بھی دہشت گردی ہے جو آپ اپنی طاقت کے مطابق کر رہے ہیں۔ انصاف تو یہ ہے کہ جس نے جرم کیا ہے وہ اس جرم کی سزا پائے لیکن اس کے ساتھ بے گنا ہوں اور معصوموں کو تہہ تیغ کر دیا انصاف نہیں ہے یہ سرکاری پیمانے پر ایک بڑی دہشت گردی ہے۔ ظلم کے مقابلے میں اگر ظلم کیا جائے تو ظلم ہی بڑھے گا۔ ظلم کے مقابلے میں عدل کیا جائے تو ظلم ختم ہو جائے گا لیکن ظلم کے مقابلے میں ظلم کیا جائے !
نئے دستور میں نئے زمانے کے لئے آگ ہی لائی گئی آگ بجھانے کے لئے
آگ لگی ہے اور آپ اس پر مزید آگ پھینک رہے ہیں تو اس سے آگ بجھے گی نہیں بڑھے گی۔ ظلم چھوٹے پیمانے پر ہوا ہے اس کی جگہ آپ بڑے پیمانے پر ظلم کرتے ہیں اور اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ  اس سے معاشر و سدھر جائے گا یہ ممکن نہیں بلکہ آپ بھی ظلم کریں گے تو ظلم بڑھے گا
 ۔ اگر انصاف کرنے والے بھی ظلم کریں گے تو ظلم ہی بڑھے گا وہ ظلم ہی کو بڑھوتری دے رہے ہیں۔ ظلم کو منانے کے لئے عدل وانصاف کی ضرورت ہے۔ تحقیق کی جائے جس نے جرم کیا ہے اسے قرار واقعی سزادی جائے اور اسے لوگوں کے سامنے سزادی جائے تا کہ دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ رعایت نہ کی جائے کوئی بڑا ہے یا چھوٹا' اسے سزادی جائے اور اس میں معاشرے کی زندگی ہے۔
وَلَكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّّآ اُولِى الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  ان صاحب دانش لو گو ا قصاص میں اور انصاف میں معاشرے کی زندگی ہے۔ اگر انصاف اٹھ جائے گا تو لوگ جیتے تو رہیں گے لیکن انسانوں کی طرح نہیں، جانوروں کی طرح انسان محض ایک کھانے پینے بات کرنے اور چلنے پھرنے والا جانور ہوگا ۔ انصاف ایسی صفت ہے جو اللہ سے رشتہ استوار کرتی ہے۔
لعلكم تتقون انصاف کرو کہ تمہیں اللہ کریم سے قرب اس سے تعلق اور اس کی محبت نصیب ہو اور معاشرہ انسانی اوصاف کے ساتھ زندہ رہے۔

با ر گا ہ نبو ت صلو عليہ وسلم کا ادب


با

خطبہ جمعہ امير محمد اکر م اعوان




اللہ کا بندہ

ا للہ پا ک کا ذکر کيو ں

اپنے رب کو بہت یاد کر

  بِ سْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ قَ الَ رَبِّ اجْعَلْ لِّىٓ اٰيَةً ۖ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ اَيَّامٍ...