Thursday, 14 March 2024

اپنے رب کو بہت یاد کر

 بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّىٓ اٰيَةً ۖ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْـرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ 

کہا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر، فرمایا تیرے لیے یہ نشا نی ہے کہ تو لوگوں سے تین دن سوائے اشارہ کے بات نہ کر سکے گا، اور اپنے رب کو بہت یاد کر اور شام اور صبح تسبیح کر۔

3-پارہ  تِلْكَ الرُّسُلُ

سورۃ  آل عِمْرَان - 3

آیت نمبر- 41


خلاصۂ تفسیر و معارف


ذكر كثير

یہاں حضرت زکریا علیہ السلام پر بھی یہ انعام ہوا کہ آپ علیہ السلام تین دن تک سوائے اشارے کے کلام نہیں کر سکیں گے اور جب یہ نعمت مل جائے گی تو وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْـرًا ًا اللہ کا ذکر بہت کثرت سے کریں۔ وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَار اور رات دن ذکر کرتا چلا جا۔ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَار صبح شام ۔ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں Round the clock یعنی ہر لمحہ۔ دن کی دو انتہا ئیں ہیں، صبح اور شام ۔ اسی طرح رات کی بھی دونوں انتہا ئیں ہیں، صبح اور شام ۔ جب رات دن کی دونوں انتہاؤں کا ذکر آتا ہے تو مراد ہوتا ہے کہ رات دن ہر لمحہ ہر آن ذکر الہی کرتے رہے۔ ذکر دوام

نبی کی ایک نگاہ ایمان لانے والے کو شرف صحابیت سے سرفراز کر دیتی ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خشوع و خضوع ان کے رکوع وسجود اور ان کے ذکر الہی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے فرمایا ثُـمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُـمْ وَقُلُوْبُـهُـمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّـٰهِ کہ ان کے کھال سے لے کر نہاں خانہ دل تک ہر ذرہ بدن اللہ کا ذکر کر نے لگ جاتا ہے ہر باڈی سیل ذاکر ہو جاتا ہے۔ اگر نبی کی ایک نگاہ سے بندہ مومن کے وجود کا ہر ذرہ ذاکر ہو جاتا ہے تو خود نبی کس درجے کا ذکر کرتا ہو گا ! انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام جو لباس استعمال کرتے ہیں وہ لباس ذاکر ہو جاتا ہے جو جو تا استعمال فرماتے ہیں اس کے سارے اجزا ذاکر ہو جاتے ہیں، جس زمین پر قدم رکھتے ہیں وہ زمین ذاکر ہو جاتی ہے، جس چیز کو چھو لیتے ہیں وہ ذاکر ہو جاتی ہے، جس جانور پر سواری کر لیتے ہیں اس کے بدن کا ہر جز و ذاکر ہو جاتا ہے گویا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے وجود کا ہر ذرہ نہ صرف یہ کہ ہرلحہ ہر آن ذاکر ہوتا ہے بلکہ وہ ذاکر گر ہوتے ہیں کہ جسے دیکھ لیں، جسے چھولیں، جہاں قدم رکھ دیں، اسے ذاکر بنا دیتےہیں۔


۔ اللہ آج بھی اگر کسی کو دل کی نگاہ دے دے تو جہاں جہاں نبی کریم کے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں نکلے یا جہاں جہاں آپ ﷺ نے سفر فرمایا، جہاں جہاں صحراؤں میں قدم مبارک رکھا آج بھی وہ قطعہ زمین اس طرح نظر آتا ہے جیسے آسمان پر چاند دکھائی دیتا ہے۔ جن راستوں سے حضور رہی ہے گزرے وہ فضا میں حد نگاہ تک منور نظر آتی ہیں۔ اس کے بارے میں ایک دفعہ حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا تھا کہ قدم مبارک کے نشان تو منور ہو گئے لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ فضا میں کیسے منور ہیں۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ جہاں تک حضور نبی کریم ﷺ کی نگاہ پاک گئی وہ فضا بھی منور ہوگئی اور قیامت تک رہے گی ۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ذکر کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کی کثرت کی کوئی حد نہیں ہے لیکن اس کے باوجود نبی کو فرمایا جا رہا ہے وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْـرًا ً اور کثرت سے اللہ کا ذکر کر ۔

یہ کمال تو محمد رسول اللہ علے کا تھا کہ جہاں تشریف لے گئے وہاں کے پتھروں کو بھی درود پڑھنا نصیب ہو گیا، درختوں کو بھی صلوٰۃ وسلام پڑھنا نصیب ہو گیا ۔ یعنی انبیاء علیهم الصلوۃ والسلام کا وجود پاک ذاکر گر ہوتا ہے ۔ اس کے بعد پھر نبی علیہ الصلوۃ و السلام کو حکم ہو رہا ہے وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْـرًا ًاور کثرت سے اللہ کا ذکر کر ۔ اس کا مطلب ہے کہ کتنا بھی ذکر کیا جائے ذکر میں ساری عمر صرف کر دیں پھر بھی وہ کثرت ذکر ابھی باقی ہے جو مذکور کی شان کے مطابق ہے۔ اللہ کی کوئی حد نہیں۔ اس کی عظمت اس کی شان اس کی ذات کی کوئی حد نہیں ۔ اس کے ذکر کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ یہاں اگر کوئی چار دن چار تسبیحات پڑھتا ہے یا پانچ دن نماز

پڑھ لیتا ہے تو سمجھتا ہے میں نے اللہ پر بڑا احسان کیا بڑا تیر مارا


ذکر کی اقسام

بہت سے احباب کا یہ گمان ہوتا ہے کہ ہم عبادت کرتے ہیں تو یہ ذکر ہے، تسبیح پڑھتے ہیں تو یہ ذکر ہے۔ ذکر کے مختلف درجات ہیں۔ صرف عبادت ہی ذکر نہیں ہے بلکہ دنیا کا جو کام بھی شریعت کے مطابق کیا جائے وہ ذکر الہی ہے وہ عملی ذکر ہے اور اس میں اللہ کی یاد موجود ہے ۔ یہ کام ایسے کیوں کر رہے ہو یہ اللہ کا حکم ہے اللہ کے رسول ﷺ کا حکم ہے ۔ اس میں ذکر موجود ہے اور یہ عملی ذکر ہے ۔ کوئی بات جو اس اعتبار سے سچی اور کھری کی جائے کہ چونکہ اللہ اور اللہ کے نبی ﷺ کا حکم ہے سچ بولولہذا میں سچی بات کر رہا ہوں تو وہ ذکر الہی ہے اس کے ساتھ اللہ کی یاد موجود ہے اللہ کے نبی ﷺ کی یاد موجود ہے۔ پھر کوئی تلاوت کرے، تسبیحات پڑھے سارا دن اسم ربانی پڑھتا رہے یہ ذکر الہی ہے لیکن یہ ذکر لسانی ہے۔ ایک ذکر وہ حال ہے کہ آپ جو کام بھی کرتے ہیں، جس حال میں بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں، وہ عملی ذکر ہے۔ زبان سے نیک بات کہتے ہیں یا

تلاوت کرتے ہیں یا تسبیح پڑھتے ہیں، یہ ذکر لسانی ہے لیکن نہ حال ہمیشہ رہتا ہے اور نہ زبان ہر وقت چلتی ہے۔ عمل بھی ہر وقت نہیں ہوتا ، عمل منقطع ہو جاتا ہے۔ آپ سارا دن کام کرتے ہیں، رات کو سو جائیں گے تو عمل منقطع ہو جائے گا ۔ زبان سے آپ کتنا ذکر کرتے رہیں لیکن زبان خاموش ہو جائے گی تو ذکر منقطع ہو جائے گا۔ ذکر کثیر نہ دل سے ہو سکتا ہے نہ لسان سے ہو سکتا ہے۔ تیسر ا ذکر ہے ذکر قلبی، دل ذاکر ہو جائے، دل میں یاد رچ بس جائے اور دنیا کا کوئی بھی کام کر رہے ہوں لیکن دل یاد سے غافل نہ رہے۔ اس کے لئے پنجابی کا ایک

محاورہ ہے : ہتھ کا رول دل پا رول ۔

ذکر خفی قلبی

آپ کوئی کام بھی کر رہے ہوں، دل اللہ اللہ کر رہا ہو ۔ آپ بات کر رہے ہوں دل اللہ اللہ کر رہا ہو ۔ آپ کھانا کھا رہے ہوں دل اللہ اللہ کر رہا ہو ۔ آپ سو جائیں دل اللہ اللہ کر رہا ہو۔ آپ جا گئیں تو پتہ چلے دل ذاکر تھا، سینے میں دھڑک کر باہر آنا چاہتا ہے ۔ آپ سوتے رہیں لیکن ذکر قلبی نصیب ہو جائے تو وہ چلتا رہے گا ۔ بندہ مر جائے، قبر میں چلا جائے، مٹی کے نیچے اتر جائے لیکن دل اللہ اللہ کرتا رہے تو ایک حد تک ذکر کثیر کے معنی کو پالیتا ہے یعنی کسی نہ کسی حد تک کثرت ذکر میں داخل ہو جاتا ہے۔ عملی ذکر کثیر نہیں ہو سکتا، عمل میں انقطاع آتا ہے۔ لسانی ذکر ذکر کثیر نہیں ہو سکتا کہ اس میں انقطاع آتا ہے ۔ زبان بند ہوتی ہے لیکن جب قلب ذاکر ہو جاتا ہے، ذکر خفی قلبی نصیب ہو جاتا ہے تو وہ ذکر دوام ہوتا ہے ۔ دل دھڑکنا چھوڑ جائے لیکن ذکر کر نا نہیں چھوڑتا ۔ موت آ جائے، دل کی دھڑکن بند ہو جائے لیکن اگر ذاکر ہے تو ذکر نہیں چھوڑتا ۔ اس کے اندر جو لطیفہ ربانی ہے وہ ذکر کرتا ہی رہتا ہے ۔ وہ قبر میں بھی کرتا رہتا ہے حتی کہ قلب ذاکر سے قبور ذاکر ہو جایا کرتی ہیں۔ کثرت ذکر کی بات جب بھی آتی ہے سوائے ذکر قلبی کے اس مفہوم کو پورا نہیں کیا جا سکتا ۔ بعض لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ جس طریقے سے صوفیا ذ کر کراتے ہیں، کیا اس طریقے سے ثابت ہے؟ بڑی آسان سی بات ہے کہ قرآن کریم میں ذکر کا حکم ہے اور سب سے زیادہ جو حکم براہ راست یا بالواسطہ دیا گیا وہ ذکر کا ہے لیکن قرآن کریم نے ذکر پر کسی طریقے کی کوئی پابندی نہیں لگائی ۔ جیسے نماز ہے۔ نماز کے طریقے کی پابندی ہے، وقت کی پابندی ہے، رکعت کی پابندی ہے، رکوع و سجود کی پابندی ہے فاتحہ شریف پڑھنے کی پابندی ہے ہر حرکت پر تکبیر کہنے کی پابندی ہے، بہت کی پابندیاں ہیں اور طریقہ کا ر بھی مقرر ہے ۔ روزے کا وقت مہینہ مقرر ہے افطار و سحر کے قواعد وضوابط ہیں۔ حج کا وقت دن اور ارکان بھی مقرر ہیں

سب عبادات

کے اوقات مقرر ہیں لیکن ذکر کے لئے کوئی طریقہ کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے صرف کثرت ذکر کا حکم ہے۔ جتنے سلاسل ذکر ہیں اور وہ جس طرح سے بھی ذکر کرتے ہیں، اگر ان میں کوئی خلاف شریعت عمل ہوگا تو اس کی اجازت نہیں ہو گی ۔ شرعی حدود کے اندر کوئی بیٹھ کر کرتا ہے لیٹ کر حرکت سے آنکھیں بند کر کے یا آنکھیں کھول کے کرتا ہے ایک کرتا ہے یا پچاس مل کر کرتے ہیں، جو کام بھی شریعت کے اندر کرنا جائز ہے اس کے مطابق ذکر کے سارے طریقے اور سلیقے جائز ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہر ایک شیخ کی اپنی تحقیق ہے، ہر سلسلے کا اپنا طریقہ ہے ۔ جس طرح انہوں نے زیادہ مفید سمجھا، اس طریقے کو انہوں نے اپنا لیا اور اس طریقے سے انہیں برکات وانوارات نصیب ہوتی ہیں۔ لہذا ذ کر کا حکم مطلق ہے اس کا کوئی طریقہ نہ اللہ نے مقرر فرمایا نہ اللہ کے رسول ﷺ نے مقرر فرمایا اور نہ کوئی آج پابند کر سکتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح ہم ذکر کرتے ہیں یہ صحیح ہے اور جس طرح دوسرے کرتے ہیں وہ غلط ہے۔ جس طرح جس کا جی چاہے لیکن ایک ہی پابندی ہے کہ ذکر کے نام پر کوئی کام خلاف شریعت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ شرعی حدود کے اندر کوئی جس طرح ذکر کرتا ہے وہ سب جائز ہے۔ اگر کسی کو اس کی لذت نصیب ہو جائے تو سب سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں چونکہ جو کچھ اس سے نصیب ہوتا ہے وہ کیفیات ہیں اور کیفیات محسوس تو کی جاسکتی ہیں، لکھنے پڑھنے میں نہیں آتیں۔ کیفیات کے لئے کوئی لفظ وضع نہیں کیا گیا کہ وہ لکھ کر بتا دے۔ کیفیات صرف محسوس کی جاسکتی ہیں اور یہ انہی کا کام ہے جنہیں اللہ نصیب کر دے۔ میری تو دعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں کو نصیب کرے ۔ آمین


اللہ کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لیے بخشش اور بڑا اجر

 اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِيْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِيْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِـرِيْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِيْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصَّآئِمَاتِ وَالْحَافِظِيْنَ فُرُوْجَهُـمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِـرِيْنَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا وَّالذَّاكِـرَاتِ اَعَدَّ اللّـٰهُ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةً وَّّاَجْرًا عَظِيْمًا 


سورہ ألأحزأب آیت نمبر ۳۵

بے شک اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں اور ایمان دار مردوں اور ایماندار عورتوں اور فرمانبردار مردوں اور فرمانبردارعورتوں اور سچے مردوں اور سچی عورتوں اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں اور عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں اور خیرات کرنے والے مردوں اور خیرات کرنے والی عورتوں اور روزہ دار مردوں اور روزدار عورتوں اور پاک دامن مردوں اور پاک دامن عورتوں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کیا ہے۔

اپنے رب کو بہت یاد کر

  بِ سْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ قَ الَ رَبِّ اجْعَلْ لِّىٓ اٰيَةً ۖ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ اَيَّامٍ...